Jadid Khabar

امریکی پشت پناہی ، اسرائیلی سفاکی اور فلسطینی خونریزی

  • 19 May 2018
  • منصورآغا، نئی دہلی
  • مضامین
Thumb

اسی ہفتہ امریکا کے تعلق سے دوبڑی خبریںآئیں۔اول یہ کہ ایران کے ساتھعالمی نیوکلیائی معاہدہ کو یک طرفہ طورپر توڑکراس سے باہر آگیا ۔ایران کے ساتھ یہ معاہدہ طویل مذاکرات کے بعد 2015میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان( امریکا، فرانس، برطانیہ ،روس، چین) اور جرمنی کے ساتھ طے پایا تھا۔ لیکن اسرائیل اول دن سے اس کی مخالفت کرتا رہا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی اسرائیلی کارڈ کھیلا ہے اوراب ان کی سرکار کا ہدف ایرانی حکومت کا تختہ پلٹ کرانا ہے۔ امریکاکی اس معاہدہ شکنی کی معاہدے میں شریک کسی دیگر ملک نے نہ تقلیدکی اورنہ تائید کی، بلکہ اس کو عالمی امن اوراقتصادیات کیلئے خطرہ قراردیا ہے۔ البتہ ایران کے پڑوسی چند مسلم ممالک نے ، جن کے ساتھ ایران کی چپقلش چلتی رہتی ہے، بعجلت اس کی تائید کردی ہے۔
 دوسراسنگین واقعہ اسرائیلی مقبوضہ یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کاباضابطہ قیام ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یواین موقف اورعالمی مخالفت کے باوجود ڈونالڈٹرمپ نے مقبوضہ یروشلم کو اسرائیل کا حصہ مان لیا ہے جس کواس نے 1967کی جنگ میں ہتھیایا تھا۔ اسرائیل نے 1980 میں یروشلم سمیت غرب اردن کے مقبوضہ خطہ کو ضم (annex) کرنے کا یک طرفہ اعلان کردیا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ اپنے اس اقدام سے اسرائیل کے جابرانہ تسلط کو تسلیم کرلیا ہے جب کہ پوری دنیا اور خاص طورسے عالم اسلام کا موقف یہ ہے کہ یروشلم اسرائیلی تسلط سے آزادہو ۔ہمارے لئے اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں ہماراقبلہ اول، مسجد اقصیٰ موجود ہے۔ اقوام متحدہ کا موقف بھی یہی ہے کہ فیصلہ فلسطین سے مذاکرات سے ہونا چاہئے۔ یہ سارا جھگڑا ختم ہوسکتا ہے اگراسرائیل اس خطے کے اصل باشندوں کے شہری حقوق بحال کردے۔ان کو واپس اپنے وطن میں آکر بس جانے دے۔  حکومت کی ساخت کو ،جو موجودہ میں یہودی نسل پرستانہ ہے، بدل کر سیکولر جمہوری کردے اورعرب باشندوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کردے۔ لیکن کیونکہ اس کا مقصد وسیع ترصہیونی ریاست کا قیام ہے، اس لئے وہ اپنی ضد پرقائم ہے۔
گزشتہ سال جون میں جب تل ابیب سے سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کا صدر ٹرمپ نے اعلان کیاتھا تبھی عالمی سطح پر اس کی سخت مخالفت ہوئی تھی۔ یواین اونے 128رکن ممبران کی تائید سے ایک قرارداد منظورکرکے اس فیصلے کی مذمت کی تھی اورعالمی قانون کی پامالی قراردیا تھا۔ ڈونالڈٹرمپ کے یہ دونوںاقدامات صاف طورسے صہیونی لابی کے سخت دبائو کا نتیجہ ہیں۔ یہ بات ابھی منظرعام پر نہیںآئی ہے کہ ٹرمپ اسرائیل کے آگے اس قدربے بس کیوں ہیں؟ کیاان کی کوئی رگ شاطراسرائیل کے قبضہ میں ہے؟ 
بروزپیر، 14مئی سفارتخانہ کے افتتاح کے موقع پر ہزاروں فلسطینی’ غزہ ۔اسرائیل‘ سرحد پر پرامن احتجاج کے لئے جمع ہوئے ۔ان کے پاس اسلحہ نہیں تھے۔ پوری سرحد پر کانٹوں دار تاروں کی اونچی باڑھ لگی ہے جس کو عبورکرکے کوئی ادھرنہیں آسکتا۔ لیکن خونخواراسرائیلی دستوں نے ان پر گولیاں برسادیں، جس میں کم از کم 60 فلسطینی شہید ہوگئے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب غیرمسلح فلسطینی اپنے حق کیلئے آواز اٹھاتے ہوئے امریکاکی زیرسرپرستی اسرائیل کی زیادتی اوربربریت کا شکار ہوئے۔امریکا نے ، جو پوری دنیا میں فسادبرپا کرتا رہتاہے، نہایت بے شرمی سے اسرائیلی بربریت کی حمایت کی ہے اورحماس کو ملزم ٹھہرایا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں، برطانیہ، فرانس، روس، کناڈا، کویت، مصر،سعودی عرب،اردن، چین، اورترکی وغیرہ نے اس کی بروقت مذمت کی ہے۔ممکن ہے دیرسویردیگرممالک بھی اس غیرانسانی حرکت کی مذمت کرنے والوںکی صف میں شامل ہوجائیں۔کویت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا فوری اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی لیکن امریکا نے رکاوٹ ڈال دی۔ کویت کا مطالبہ یہ تھا غزہ کی سرحد پراسرائیلی فائرنگ کی غیرجانب دارانہ جانچ ہو۔ امریکا اس پر راضی نہیں۔
چندردعمل
اقوام متحدہ کے کمشنربرائے انسانی حقوق مسٹرزیدابن رعد حسین نے ان ہلاکتوں کو انسانی حقوق کی غیرمعمولی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کیلئے جوبھی ذمہ دارہے اس کی جوابدہی ہونی چاہئے۔ یواین جنرل سکریٹری انٹونیوگوٹیرس نے کہاکہ وہ اس سے خاص طورسے فکرمند ہیں۔ یورپی یونین کی طرف سے پالیسی سربراہ فیڈیریکا موگھیرینی نے کہا کہ آج اسرائیل کی گولیوںسے بچوںسمیت درجنوںفلسطینی مارے گئے ہیں اورسینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں سب انتہائی ضبط سے کام لیںگے تاکہ مزید جانی نقصان نہ ہو۔فرانس کے صدرامانیول مکرونے ’’مظاہرین کے خلاف اسرائیلی مسلح فورسز کے تشدد‘‘کی مذمت کی اوراردن کے شاہ عبداللہ دوم اورمحمود عباس سے فون پر کہاکہ فرانس یروشلم سفارتخانہ منتقل کرنے کے امریکی فیصلے کی مذمت کا اعادہ کرتا ہے۔برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے دونوں کو تحمل کی تلقین کرتے ہوئے کہاایسے اقدامات سے بچا جانا چاہئے جوامن کوششوں کوتباہ کرنے والی ہیں۔کناڈا کے وزیرخارجہ کرسٹیا فری لینڈ کے مطابق’ یہ ناقابل معافی ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں صحافی اوربچے بھی ہیں۔‘
روسی وزیرخارجہ سرگئی لائوروف نے کہاکہ ’یروشلم کی حیثیت کاتعین فلسطینیوںسے براہ راست بات چیت سے ہونا چاہئے۔اقوام متحدہ میں کویت کے سفیر منصورالعتیبی نے کہا،جو کچھ ہوا، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یواین سکیورٹی کونسل کاہنگامی اجلاس طلب کرنے کی ان کی درخواست کو امریکا نے بلاک کردیا۔مصرکی وزارت خارجہ نے مارے گئے افراد کو شہید کہا اور ’تشدد میں اس شدید اضافہ‘ کے خلاف انتباہ دیا۔البتہ جامعہ ازہر کے امام معظم احمدالطیب نے تمام عربوں، مسلمانوں دنیا کے تمام حق پسند انسانوں سے اپیل کی کہ وہ غیرمسلح فلسطینی عوام کی پشت پناہی کے لئے آگے آئیں۔
چین نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی ہے اورسفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے پر تشویش ظاہرکرتے ہوئے کہاہے اس سے صورت حال مزید خراب ہوگی۔لیبیا ئی تنظیم نے بھی اسی طرح کی تشویش کا اظہارکیاہے۔ سعودی وزارت خارجہ کے ترجمان نے’ غیرمسلح فلسطینیوں پر اسرائلی مقبوضہ فورسز کی فائرنگ کی شدیدالفاظ میں مذمت‘ کی ہے۔ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے اس کو شدید ندامت کا دن قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل غزہ میں اسرائیل نے بے شمار فلسطینیوںکابے رحمی سے اجتماعی قتل کیاہے۔ جب کہ ترکی نے اسرائیل اورامریکا سے اپن سفیروں کو مشورے کے لئے طلب کیا ہے ۔ صدررجب طیب اردغان نے کہا ہے، کہ اسرائیل سرکاری دہشت گردی برپاکررہاہے۔ اسرائیل ایک دہشت گردریاست ہے اورنسل کشی کی مرتکب ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اسرائیل نے اس خون ریزی کو اپناتحفظی حق قراردیاہے اورامریکا نے اس کی تائید کی ہے جب کہ محمود عباس نے’ اسرائیلی قتل عام‘ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اب مشرق وسطیٰ میںامریکا کاثالث کاکردارختم ہوگیا ہے اوراس کا یہ سفارتخانہ اسرائیلی مقبوضہ یروشلم میں امریکہ کی پہلی چوکی بن گیا ہے۔ حماس نے پرامن مارچ کے لئے اپنے پختہ عزم کااعادہ کیا۔ جبکہ امنیسٹی انٹرنیشنل نے اس واقعہ کو انسانی حقوق کی ـ’سفاکانہ خلاف ورزی‘ قراردیتے ہوئے کوجان بوجھ کرکی گئی خونریزی قراردیا اور کہاکہ یہ جنگی جرائم ہے۔ 
چین اورلیبیا کے سوا مختلف ممالک اوراداروںکے یہ مختصرتاثرات اے ایف پی کے حوالے سے الجزیرہ (انگلش) نے شائع کئے ہیں۔ ان کوغورسے پڑھئے اوردیکھئے کہ ظالم اورمظلوم کوایک صف میں شمار کر لینا اور تحمل کی تلقین کرناانصاف کا تقاضا ہے، حق بجانب ہے۔دنیا جانتی ہے، تاریخ گواہ ہے نسل پرست صہیونی اسرائیل کھلا ظالم، غاصب اورقاتل ہے اورفلسطینی مظلوم ہیں۔ ان کوجبراً ان کے گھروں سے نکالاگیا ،ماراگیا اور قید میں ڈالا گیاہے۔ وہ اپنے جائزقانونی، شہری اورانسانی حق کے سواکچھ اورنہیں چاہتے، جبکہ اسرائیل کو صرف ان کی زمین اورلاشیں درکار ہیں۔ سی این این نے اپنے ایک تبصرے پر بجا طورسے سرخی لگائی ہے:  ’ہمارے دور میں مشرق وسطیٰ میں امن کا خواب اس پیر کو مرگیا۔‘
‘The dream of 'peace in our time' in the Middle East died on Mondayـ’
تشویش کی بات
ان بیانات پر غورکرتے ہیں تو سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیاایسے سفاکانہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کی سرزنش کیلئے مذمت کے دوبول کافی ہیں ؟ دوسرااہم سوال یہ بھی ہے کہ ہماراقبلہ اول اسی شہریروشلم میں واقع ہے جس کی بازیابی کے امکانات اس سانحہ کے بعد معدوم اور اسرائیل کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ گزشتہ چند سالوںمیں قبلہ اول کی بازیابی کے بارے میں ہماراجوش وجذبہ اور موقف کمزور ہواہے اور اس اجتماعی عزم میں کمی نظرآتی ہے جو 1967کے بعدشدت سے ابھراتھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ اب اسرائیل کی سفاکیوں کے خلاف مسلم ممالک سے مشترکہ آواز نہیںاٹھتی ہے۔ ایران کے ساتھ مشترکہ نیوکلیائی معاہدہ سے امریکا کی یک طرفہ اوربلاجواز علیحدگی ہویایروشلم کو اسرائیل کا حصہ بناکر اوراس کا دارالخلافہ ٹھہرانے کا معاملہ ہو، غورکیجئے کہ دونوں میں فتح کس کی ہے اورشکست کس کی ہے؟ یہ اسرائیلی موقف اورحکمت کی فتح اورعالم اسلام کی شکست ہے۔ جون1967میں اسرائیلی یلغار کے بعد جس طرح کا عالم اسلام میںمشترکہ موقف ابھرا تھا، وہ اب کافور ہوگیا ہے۔امریکا اوراس کے حلیفوںنے حکومت تبدیل کرنے کے نام پر(جس کا اس کو کوئی قانونی، سفارتی یا اخلاقی حق واختیارنہیں ) افغانستان، عراق اور لیبیا کو تباہ کردیا ۔شام کی تباہی جاری ہے۔ مصرکی منتخب حکومت کو جیل میںپہنچا دیا اورہم اپنے اصولی موقف سے دائیں بائیں ہوتے رہے۔ سقوط خلافت عثمانیہ سے لے کرآج تک کی تاریخ پر ہم نظرڈالتے ہیں توعالم اسلام تیل سے حاصل ہونے والی دولت میں بے پناہ اضافہ کے باوجود حشمت ووقار سے تہی دستی اورروزافزوں بیرونی ریشہ دوانیوں کا شکار ہو رہاہے۔جوحرکت امریکا کرتا ہے وہی بعض مسلم ممالک بھی کرتے ہیں اورپڑوسی برادرممالک کے داخلی معاملات میںمداخلت اورتختہ پلٹ کی سازشوںکے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ان خباثتوںکے پراتنے پھیل گئے ہیں حرمین شریفین بھی، جو امن کی جگہ نشانہ پرہیں۔ اس رمضان اللہ سے دعاکیجئے کہ اپنے علاقائی اورباہمی اختلافات کے باوجود بیرونی خطروں کا مقابلہ کیلئے عالم اسلام ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے۔ قرآن کہتا ہے کہ ’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہادکرتے ہیں، گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہیں‘( الصف آیت 61:04)
رمضان کریم کی بابرکت دعاؤں میں اپنے مظلوم بھائیوں کو یاد رکھئے اوراس ناچیزکو بھی۔اللہ آپ کی عبادات اوراعمال صالحہ کوشرف قبولیت سے سرفراز فرمائیں اورکوتاہیوںکے لئے درگزرفرمائے۔آمین۔