گزشتہ اتوار(24؍جون) ترکی میں ایک ساتھ صدارتی اورپارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے۔ گنتی فوراً شروع ہوگئی اوررات تک صورت واضح ہوگئی۔چھ رخی مقابلے میںصدررجب طیب اردغان کو پہلے ہی دورمیں 53فیصد ووٹ مل گئے اور کامیاب قراردیدئے گئے۔ جب کہ ان کے اصل مخالف ابراہیم اینسی کو صرف 31فیصدووٹ ملے۔ باقی چار میں سے ایک کو 8.4، دوسرے کو 7.3فیصداوردوکوان بھی کم ووٹ ملے ۔
پارلیمانی چناؤ میں صدراردغان کی پارٹی (Justice and Development Party) یعنی’انصاف اوروکاس پارٹی‘( اے کے پی) کو43 فیصد اور ان کی حلیف پارٹی ایم ایچ پی کو 11فیصد ووٹ ملے ۔ان دونوں کو 600 رکنی ایوان میں 345 سیٹیں مل جائیں گی۔ اصل حریف انیسی کی قیادت والی پارٹی ’سی ایچ پی‘ کو 23فیصد اور کرد پارٹی ’ ایچ ڈی پی‘ کو 12 فیصد ووٹ ملے ۔ ان کے ممبران کی تعداد 146 اور44 ہوگی۔ کرد اس لئے بہت خوش ہیں کہ ان کی پارٹی کوپارلیمنٹ میں پہلی مرتبہ نمائندگی مل رہی ہے۔ 10 فیصد سے کم ووٹ والی پارٹی کو نمائندگی نہیں ملتی۔
صدارتی چناؤ جیتنے کے لئے کم از کم 50فیصد ووٹ درکار ہوتے ہے ۔بصورت دیگر سب سے زیادہ ووٹ پانے والے امیدواروں کے درمیان دوبارہ پولنگ ہوتی ہے ۔ اسی کا متبادل طریقہ ’واحد قابل منتقلی ووٹ‘ یعنی (Single Transferable Vote) ہے جو ہمارے یہاں راجیہ سبھا اورریاستی کونسلوں میں رائج ہے۔اس میں ہرووٹر پہلی پسند کے ساتھ ایک ووٹ دوسری ترجیح کا دیتا ہے۔ اگرکامیابی کے لئے مقررہ تعدادمیںامیدواروں کومطلوبہ ووٹ نہ ملیں تو پہلی ترجیح کے سب سے کم ووٹ والے امیدوار کے دوسری ترجیح کے ووٹ دیگرامیدواروںکے گوشوارے میں ڈال دئے جاتے ہیں تاوقتیکہ ہرامیدوار کومطلوبہ ووٹ نہ مل جائیں۔
ترکی میں پارلیمانی الیکشن میں پارٹی کو جتنے ووٹ ملتے ہیں اسی کے تناسب سے اس کو سیٹیںملتی ہیں۔ ’متناسب نمائندگی‘ (Proportional Representation)کا یہ طریقہ ہند میں رائج طریقہ سے زیادہ نمائندہ اور جمہوری ہے۔ اندازہ کیجئے کہ 2014کے لوک سبھا چناؤ میں بھاجپاکو صرف 31فیصد ووٹ ملے مگر 543 میںسے 282سیٹ مل گئیں جو تقریبا52فیصد ہے۔ جب کہ کانگریس کاووٹ فیصد 19.31 تھا مگر صرف 44 سیٹ ملیں۔ ایک موازنہ اوردیکھئے بی ایس پی کا ووٹ حصہ 4.1فیصد اورسیٹ صفر۔ جب کہ ٹی ایم سی کا ووٹ شیئر 3.84 فیصد اورسیٹیں ملیں34۔ اسی لئے لوک سبھا چناؤ کے بعد مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے اس مطالبہ کو دوہرایا تھا کہ یہاں بھی متناسب نمائندگی کا طریقہ رائج ہونا چاہئے۔
اردغان کی مقبولیت
صدراردغان نے استبول کے میئر (1994-98)سے موجودہ منصب صدارت تک طویل سیاسی سفرطے کیا ہے۔ ترکی کو جو ’یوروپ کا بیمار‘کہلاتا تھا، اقتصادی اعتبارسے مضبوط کیا۔ترکی نے تعمیراتی میدان میں کمال کی ترقی کی اور دنیا کی سب سے بڑی تعمیراتی انڈسٹری کھڑی کرلی۔ زراعت اور باغبانی سے پیداواراوربرآمدات میں ایک دہائی میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ۔ عوام کی بنیادی ضرورتوں جیسے صحت خدمات، پانی کی دستیابی، سڑک، مواصلات وغیرہ کو وسعت حاصل ہوئی۔ تعلیم کے شعبہ میں بڑاکام ہوا۔اعلیٰ تعلیم کے لئے بڑی تعداد میں بیرونی طلبہ ترکی کا رخ کرنے لگے ہیں۔ یہ سارے ترقیاتی کام صدر اردغان کی مقبولیت کی بنیاد بنے۔جس کا اندازہ 2016 میں فوجی بغاوت کے وقت ہوگیا تھا جب عوام جدید اسلحہ سے لیس فوجیوں اوران کے ٹنکوں کے سامنے سینہ سپرہوگئے ۔ ان کو آگے نہیں بڑھنے دیا اوردنیا کی آنکھیںکھلی کی کھلی رہ گئیں۔
چناؤ پر دنیا کی نظر:
اس مقبولیت کی باوجود اس چناؤ پر دنیا کی نظریں گڑی تھیں۔سب سے بڑی وجہ یہ کہ اردغان کی شبیہ ایک اسلام پسند لیڈر کی ہے ۔ابتدائی دورمیں وہ ترکی کے قدآور اسلامی نظریاتی وسیاسی رہنما نجم الدین اربکان کی ’رفاہ اسلامی پارٹی ‘ سے وابستہ رہے۔انہوںنے بعض عملی مصالح سے’انصاف اوروکاس پارٹی‘ قائم کی ، جس کی روح اربکان کی تحریک کا ہی پرتوہے ۔ اسی تحریک کی بدولت ترکی میں جوہری تبدیلیوں کا دورشروع ہوا۔ سیکولرزم کے نام پر عوام پر مسلط جبری لادینیت کا حصارٹوٹا۔ مذہبی آزادی نے عوام کوروحانی سکون دیا اور دینی شعارواقدار کی بحالی نے اسکولوں، کالجوں، دفتروں اور بازاروں کے ماحول کو نیا رنگ وآہنگ عطا کیا۔پہلے وزیراعظم اورپھرصدرکی حیثیت سے جناب رجب طیب اردغان اوران کے پیش رو صدرعبداللہ گل کااس تبدیلی میںاہم کردار رہا۔ ظاہر ہے ’اسلام فوبیا‘کے عالمی ماحول میںترکی میں کمال اتاترک کی لادینی وراثت کا سمٹ جانا اوریوروپ کے ہی ایک ملک میں پھر سے اسلام کا رنگ ابھر آنا بہت سے ذہنوں میں خارکی طرح چبھتا ہے۔اسی کی بدولت 2016 میں جمہوری حکومت کا تختہ پلٹنے اور اردغان کوقتل کردینے کی مسلح کوشش ہوئی۔سڑکوں پر ٹنک نکل آئے۔ پارلیمنٹ ہائوس پر بم برسائے گئے۔جس ہوٹل میں اردغان مقیم تھے اس پر یلغارہوئی مگروہ بچ نکلے ۔اگر عوام ٹنکوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے نہ ہوگئے ہوتے توباغی کامیاب ہی ہوجاتے۔ یہ صرف اللہ کی نصرت تھی کہ عوام میں اتنی ہمت پیداکردی اورفوجی بغاوت چندگھنٹے میں ناکامی سے دوچار ہوگئی جس میں تین ہزارافراد ناگہانی مارے گئے۔ چنانچہ یہ ضروری ہوگیا تھا کہ ان عناصرپر قدغن لگائی جائے جو اس سازش کے دماغ یا دست بازو تھے۔ بہت سے باغی گرفتارہوئے۔ تقریباًایک لاکھ ساٹھ ہزارافراد چھٹنی کی زد میں آگئے جن میں فوجی بھی تھے، سول افسربھی ، اساتذہ بھی اورعدلیہ کے لوگ بھی۔کچھ لوگ انسانی حقوق کی دہائی دے کر باغیوں کی سرکوبی کے خلاف شورمچاتے ہیں۔ وہ شورانتخاب کے دوران اورمغربی میڈیا میںخوب سنائی دیا۔
بغاوت کی اس سازش کے لئے فتح اللہ غولن شک کے گھیرے میں ہیں۔ اگرچہ انہوں نے اس سے انکار کیا لیکن اپنی صفائی پیش کرنے نہ وہ خود ترکی پلٹے اورنہ مطالبہ کے باوجود امریکا نے ان کو ترکی بھیجا۔ حالانکہ بعد میں جب پکڑ دھکڑ ہوئی تو بڑی تعداد میں ان کے ہم نوا اورمقلد ملوث پائے گئے۔ مسٹرغولن ایک زمانے میں مسٹراردغان کی پارٹی’اے کے پی‘ کے معاون تھے، مگرپھر اختلافات پیدا ہوگئے ۔جب ان کی نہیںچلی تو وہ ازخود ترک وطن کر کے امریکاکی پناہ میں جابسے ۔ گمان یہ ہے کہ اس سازش میں شرارت امریکا کی بھی تھی جو جمہوریت کے نام پر مسلم ممالک کے داخلی معاملات میں دخل دیتا ہے۔ لیکن جب مصرمیں عوامی تحریک اورجمہوری انتخاب میں 2012 میں منتخب اسلام پسند صدرمحمدمرسی کو فوج نے ایک ہی سال میںبے دخل کرکے قید کردیا تو امریکا اوراس کے حلیف اس بغاوت کے خاموش موئد بنے رہے۔
اردگان کی خارجہ پالیسی بھی توجہ کا مرکزہے۔ ناٹوکا رکن ہونے کے باوجود انہوںنے روس کے ساتھ راہ ورسم بڑھائی ۔امریکا سے جنگی طیارے خریدے توروس سے طیارہ شکن توپیں۔ یہ بات ظاہر ہے امریکا کو ہرگز نہیں بھاتی۔ ایسا ہی توازن انہوں نے ایران اوراسرائیل کے ساتھ تعلقات میں رکھا ہے۔ روہنگیا کرائسس میں وہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے نظرآئے اوربنگلہ دیش کوپناہ گزینوں کی خبرگیری اورصحت خدمات کے لئے خطیرتعاون فراہم کیا۔کمپوں میں بچوں کے لئے اسکول قائم کئے۔غریب ممالک کے ذہین بچوں کو ترکی میں تعلیم کی مفت سہولت بھی فراہم کی۔وغیرہ۔
نظام حکومت کی تبدیلی:
اردغان نے گزشتہ سال ایک بڑافیصلہ کیا۔ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانے کے لئے استصواب رائے کرایا۔ جس کی توثیق 51فیصدووٹ سے ہوگئی۔لیکن یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہئے کہ مخالفت میں 49 فیصد ووٹ کم نہیں ۔ اگرچہ ریفرنڈم کے بعد ایمرجنسی کی بدولت عملاً اہم اختیارات صدرکو حاصل ہیں، لیکن انہوںنے آئین میں تبدیلی کے بعد اس نظام کے باضابطہ نفاذ کے لئے 18ماہ قبل یہ چناؤ کرائے ۔
یہ انتخابات صاف ستھرے ہوئے۔ ہزاروں کی تعداد میں غیرملکی اخبارنویسوں نے جابجاانتخابی عمل پرنظررکھی۔ اگرچہ حزب مخالف کے بڑے لیڈرابراہیم اینسی نے بے ضابطگیوں کا الزام لگایا مگر کسی آزاد زریعہ سے اس کی تصدیق نہیںہوئی۔ ووٹ شیئر میں بھاری فرق سے یہ ظاہر ہوگیا کہ یہ الزام بس یونہی تھا۔ بیشک صدراردغان اس ماحول میں، جب کہ ان کے خلاف سازشیں جاری تھیں اور الزامات کی یلغارتھی،اس کامیابی پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ کامیابی انہوں نے سہانے سپنے دکھاکر حاصل نہیں کی بلکہ ان کا کام بول رہا ہے۔انہوں نے غربت سے زندگی شروع کی۔سڑکوں پر لیمن اور، بن اوربرگرفروخت کئے ۔ غربت کیا ہوتی ہے اورغریب کی دادرسی کیا ہوتی ہے، وہ خوب جانتے ہیں۔ان کی فکرمیں اسلامیت اوران کے خمیر میں خدمت حلق رچی بسی ہے۔ مگران کی دین پسندی تنگ نظری، علامتی مذہبیت اورجنگجوئیت سے پاک ہے۔ اسی لئے ان کے چاہنے والوں میں نوجوان اورجدید ذہن کے لوگ بھی شامل ہیں۔سیاسی امورمیں وہ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہیں۔
مصرکے منتخب اسلام پسند صدر محمدمرسی نے اگرایسی ہی روش اختیارکی ہوتی اورقدم بہ قدم آگے بڑھتے ، توشاید وہ نہ ہوتا جو اتنی بڑی کامیابی کے بعد ہوگیا۔ لیکن بہرحال اردغان ہوں یا مرسی یا ملائیشیا کے انورابراہیم اورمآثرمحمد،سب کی فکر انسانی ہے، جس میں لغزش کاامکان ہے۔ ملائیشیا اور ترکی کے حالیہ انتخابات میں کامیاب رہنماؤں کو یوں بھی محتاط رہنا ہوگا کہ شاطروں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ ہزارحفاظتی حصاروںکے باوجود سفاک شاطر ہاتھ شاہ فیصل ؒ تک پہنچ گئے ۔ اس لئے جو مہلت ملی ہے، اس کااستعمال بحضورقلب شعور اوراحتیاط کے ساتھ ہوگا تبھی فلاح کی راہیں کھلیں گیں۔
کچھ اندیشے:
ترکی میں جس نئے صدارتی نظام کی بنیادپڑی ہے، اس میں بیشک کچھ خطرے شامل ہیں۔ سیاسی مفکرین کہتے ہیں، ڈکٹیٹر شب دنیا کا بہترین نظام حکومت ہے اگر حکمراںنیک نیت اوردوراندیش ہواورصحیح فیصلے کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔ یہ نظام ، جس میں کل اختیارات ایک فرد یا اس کے گرد چند افراد کے ہاتھوں میں سمٹ آتے ہیں، اس وقت بدترین نظام بن جاتا ہے جب بدنیتی، کوتاہ اندیشی اورغلط روی راہ پاجائے۔موجودہ قانون کے تحت صدراردغان زیادہ سے زیاہ 2032تک برسر اقتدار رہ سکتے ہیں۔ ہم ان کی درازی عمر کی دعاکرتے ہیں۔ لیکن کیا لازم ہے ان بعدمیں آنے والے افرادبھی ملک وملت کے مفادمیںان اختیارات کوجو صدرمحترم نے اپنے لئے حاصل کئے ہیں، اسی زیرکی اور دیانت سے استعمال کرسکیںگے؟
نئے نظام میں وزیراعظم کا منصب ختم ہو جائے گا۔ وزیروںکاتقرربراہ راست صدرکریں گے، اس لئے وہ صدرکوجواب دہ ہونگے۔ پارلیمنٹ کو نہیں، جس سے پارلیمنٹ کمزورہوگی ۔ایسا نظام جس میں موثرنگرانی اورتوازن (Checks and balances) کامیکانزم شامل نہ ہو، ملک ومعاشرے کے لئے خطرہ بن جاتا ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب بڑی عیارطاقتیں دیگرممالک کے حکمرانوں اور وسائل کا استعمال اپنے مفاد میں کرنے کی مہارت رکھتی ہیں۔یہ صورت عوام میںبے اطمینانی اورملک میںشورش کو ہوادے سکتی ہے۔
اس کا لحاظ بھی ضروری ہے کہ ریفرنڈم میں اوراس کے بعد صدارتی چناؤ میں ان کے خلاف آدھے سے کچھ ہی کم ووٹ آیا۔ سچی جمہوریت کبھی اقلیتی رائے کونظرانداز نہیں کرتی بلکہ اس کو سنتی ہے ۔ مخالفین کی رائے کا احترام جمہوریت کا اہم تقاضاہے۔ امید کہ صدراردغان کی ترجیحات میں یہ نکتہ شامل ہو گا۔
آخری بات:
لیکن کسی کو یہ گمان نہیں ہوجانا چاہئے کہ یہ خلافت عثمانیہ کی واپسی ہے۔ ملاحظہ ہوصدراردگان نے 2003 میںپہلی باروزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ٹائمزمیگزین سے کیا کہا تھا: ’’بحیثیت مسلمان میں اپنے دین کے مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔میری اپنے خالق اللہ کے تئیں ایک جوابدہی ہے ،میں اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن میں اس کو اپنی ذاتی زندگی تک رکھنے اوراپنی سیاسی زندگی کو اس سے الگ رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ ان کا یہ بیان اس دورکے پس منظرمیں، جب کہ ابھی فوج اورعدلیہ میں کمال اتاترک کے نظریہ کو جبری نافذ کرنے والوں کی بڑی طاقت تھی، ان کی سیاسی دوراندیشی کا مظہر ہے۔ سیاست میں جذباتی رد عمل ، بڑبولا پن اور’ہم برداشت نہیں کریں گے‘ کے نعرے خودکشی کی مترادف ہوتے ہیں، جس میں الا ماشاء اللہ ہم سب گرفتار ہیں۔ اسی لئے ہمارے درمیان کوئی رجب طیب اردگان نظرنہیں آتا۔