Jadid Khabar

مسلمانوں نے کس طرح ووٹ دیا؟

Thumb

17ویںلوک سبھا کی تشکیل کے لئے 2019ء انتخابات کے نتائج خود جیتنے والوں اور حکمراں پارٹی کے لئے کسی قدر غیرمتوقع رہے ۔بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور اے وی ایم کی تبدیلی وغیرہ کی مختلف کہانیوں کے باوجود سب سے اہم قابل غور نکتہ یہ ہے کہ حکمراں بی جے پی کو ملک کے سب سے بڑے اقلیتی طبقہ کے کثیرووٹ کس طرح حاصل ہوئے ؟ حلقہ واری نتائج کے تفصیلی تجزیہ سے اس حقیقت کی نشان دہی ہوتی ہے کہ ہندوستان بھر میں مسلمانوںنے یقیناً بی جے پی کو ووٹ دیا ہے۔ملک میں 46ایسے حلقے ہیں جہاں پر 35فیصد سے زائد مسلم آبادی ہے۔ان میں سے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے ) نے 2019کے انتخابات میں 14نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔2014 میں اگرچہ اس نے اترپردیش کے تمام 12مسلم اکثریتی حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن 2019میں صرف 5حلقوں میرٹھ ‘ مظفرنگر ‘ کیرانہ ‘ بہرائچ اور بریلی میں جیت حاصل کی ہے ۔
اترپردیش کے ان 7حلقوںمیںجنہیں اس مرتبہ این ڈی اے برقرار نہیں رکھ پائی ہے ‘  2014اور 2019میں ڈالے گئے ووٹوں کے ایک تقابلی جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی 2014کے اپنے ووٹ شیر کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے بلکہ بعض جگہ اس میں اضافہ بھی ہوا ہے۔بجنور میں بی جے پی امیدوار نے 2014میں 46فیصد ووٹ حاصل کئے تھے لیکن اس مرتبہ پارٹی کو 45فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ اسی طرح امروہہ میںاسے 2014میں 48فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اس مرتبہ 46فیصد ہی حاصل ہوئے اور بی جے پی کی مخالفت میں زیادہ ووٹ امروہہ شہر سے پڑے  جبکہ دیگر 4اسمبلی حلقوںمیںبی جے پی اپنا ووٹ شیر برقرار رکھ پائی ہے ۔
مرادآباد میں بی جے پی کا 2014ء اور 2019 ء کا 43فیصد ووٹ شیر برقرار رہا۔ رام پور میں بی جے پی کو 37فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے جس میں اس دفعہ 42فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ سہارنپورمیں اس نے 2014کا اپنا 40فیصد ووٹ شیر برقرار رکھا ہے۔سنبھل میں پارٹی کاووٹ شیر 34فیصد سے بڑھ کر 41فیصد ہوگیا جب کہ نگینہ حلقہ میں سابقہ 40فیصد ووٹ شیر برقرار رہا۔ سرسوتی پارلیمانی حلقہ میں 2014میں 36فیصد ووٹ پڑے تھے جو اس مرتبہ بڑھ کر 44فیصد ہوگئے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مسلمانوں نے بہار میں بی جے پی کو بڑھ چڑھ کر ووٹ دیا ہے جہاں اس نے جنتادل متحدہ (جے ڈی یو ) کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔2014میں بی جے پی کو ان تمام 4حلقوں پر ناکامی ہوئی تھی جہاں پر مسلم آبادی 35فیصد سے زائد ہے جن میں 41فیصد مسلم آبادی والا ارریہ ‘ 57فیصد والا کشن گنج ‘ 43فیصدوالا کٹیہار اور 38فیصد والا پورنیا شامل ہیں۔تاہم اس مرتبہ این ڈی اے نے کشن گنج کو چھوڑکر تمام تین حلقوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
مغربی بنگال میں11نشستیں ایسی ہیں جہاں پر مسلم آبادی 35فیصد سے زیادہ ہے ان میں سے 2حلقوں پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کی ہے ۔رائے گنج جہاں کی مسلم آبادی 48فیصد ہے اور مالدہ (شمال ) جہاں کی مسلم آبادی 50فیصد ہے اس مرتبہ بی جے پی کی جھولی میں آگئے۔2014ء میں ان دو حلقوں میں سے کسی بھی حلقہ میں اسے جیت نہیں ملی تھی۔ 
جنگی پور میں جہاں مسلم آبادی 64فیصد ہے ‘ بی جے پی کا امیدوار 3.1لاکھ ووٹ حاصل کرتے ہوئے دوسرے نمبر پر رہا۔ اس طرح اسے کانگریس کے ابھیجیت مکرجی سے جو تیسرے نمبر پر رہے  70فیصد ووٹ زایدووٹ حاصل ہوئے ہیں ۔
اسی طرح مالدہ جنوب میں جہاں مسلم آبادی54فیصد ہے بی جے پی امیدوارکو 8ہزار ووٹوں کے معمولی فرق سے شکست اٹھانی پڑی تاہم مغربی بنگال کی سیاست کے مبصرین کے مطابق مالدہ شمال میں مسلمانوں کے ووٹ غنی خاں کے ارکان خاندان ۔ ایشا خاں چودھری اور موسم نور کے درمیان تقسیم ہوگئے جس کے نتیجہ میں بی جے پی کے کھاگن مرمو کو جیت حاصل ہوئی ہے۔جموں و کشمیرمیںبی جے پی نے اپنی دو نشستیںلداخ اور ادھم پور کوبرقرار رکھا ہے جہاں 2014میںاسے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ 
آسام میں اس طرح کی 4نشستوں میں بی جے پی نے آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یوڈی ایف ) سے کریم گنج سیٹ چھین لی۔جب کہ نوگاوں سیٹ پر اسے محض 16,700ووٹوں سے شکست حاصل ہوئی ہے۔2014میں نوگاوں سیٹ پر اسے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔سیاسی مبصرین کااحساس ہے کہ بدرالدین اجمل کی اے آئی یوڈی ایف نے کانگریس کے حق میں ووٹوں کو مجتمع کرنے میں مدد کے لئے نوگاوں سے اپنا امیدوارنہیں اتارا۔ 
تلنگانہ میں اس طرح کی دو نشستوں میں سے بی جے پی نے سکندرآبادنشست پر قبضہ برقرار رکھا ہے۔یہ نتیجہ حقیقت میں حیرت انگیز رہا کیوں کہ ٹی آر ایس کو ریاست میں مسلم ووٹوں کے چمپئن کے طور پر دیکھا جارہا تھاکیو ںکہ اس کے لیڈر کے سی آر نے مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے کئی اسکیمیں متعارف کی تھیں ۔
سی ایس ڈی ایس ۔ لوک نیتی کی جانب سے مارچ 2019میں ایک ماقبل انتخابات اسٹڈی کروائی گئی جس میں ہندوستان کی 19ریاستوں سے 10ہزار افراد سے سوال پوچھے گئے جن میں 13فیصد جواب دینے والے مسلمان تھے۔ ان میں سے 26فیصد نے کہا کہ نریندر مودی کو ایک اور میعاد دی جا نی چاہئے ۔یہ فیصد عیسائیوں 21)فیصد) سے بھی زیادہ ہے۔اسٹڈی میں حصہ لینے والے مسلمانوں کے 14فیصد نے کہا کہ کانگریس کے بعد ان کی دوسری پسند بی جے پی ہے نہ کہ سماج وادی پارٹی یا بہوجن سماج پارٹی جیسی دوسری پارٹیاں ۔
بی جے پی قائدین نے کہا کہ بی جے پی اور مسلمانوں کے تعلق سے میڈیا کا تنگ نظررویہ  اور کسی حد تک بعض قائدین کی جانب سے دیئے جانے والے غیر ذمہ دارانہ بیانات بی جے پی اور مسلمانوں کے درمیان اعتماد شکنی کے لئے ذمہ دار ہیں۔ 
اگر ہم عوامل کا تجزیہ کریں جن کا ایک ریاست سے دوسری ریاست تک دلوں کو تبدیل کرنے میں اہم رول رہا ہے تویہ مختلف النوع رہے ہیں۔اترپردیش میں جہاں بی جے پی نے مظفرنگر اور کیرانہ میںبھی جیت حاصل کی ہے  وہاں کے مسلمانوں نے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اب یہ سوچنا شروع کردیا ہے کہ ریاست کی سطح پر کون ؟ اورمرکز کی سطح پر کون موزوں ہوسکتا ہے۔نتیجہ سے اس حقیقت کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ سابقہ این ڈی اے حکومت کی جانب سے شروع کردہ کئی اسکیموں میں سے بعض کا عوام کو فائدہ پہنچااور استفادہ کرنے والوں نے فائدوں کی بنیاد پر اپنی وفاداریوں کو تبدیل کیا ہے کیوں کہ وہ اس حقیقت کا سامنا کرتے رہے کہ گذشتہ 70برسوں کے دوران مختلف حکومتوں نے ان کی بہبود کے لئے صرف زبانی جمع خرچ کیا ہے۔
اس پس منظر میں ایک سوال سا منے آتا ہے کہ آیا مسلمانوں نے اپنے مذہبی لیڈروں اور نام نہاد برادری کے قائدین کو سننا بند کردیا ہے اور دیگر عوامل کی بنیا دپر اپنے نصیب کا خود فیصلہ کرنے لگے ہیں۔اس کا جواب شایداثبات میںہے۔اس کی ایک تازہ مثال اترپردیش کے گونگا سے سامنے آئی ہے جہاں مایہ ناز بیگم نے اپنے شوہر اور رشتہ داروں کی سخت مخالفت کے باوجود اپنے نومولود بچے کا نام نریندر مودی رکھاجس کے پیچھے اس خاتون کا یہ تاثر کارفرما ہے کہ وزیراعظم مودی اچھا کام کرنے والے اور وعدوں کو پورا کرنے والے ہیں۔ 
شاید یہ مستقبل کی ایک جھلک ہے جب قائدین کوان کے ماضی کی کارگزاری اور وعدوں کو پورا کرنے کی بنیاد پرمنتخب کیا جائے گا اور بڑی حد تک اس عنصر نے حالیہ انتخابات میں بھی اپنا رول ادا کیا ہے ۔