بین المذاہب فورم نے متعدد عالمی مسائل کو حل کرنے میں مذہبی رہنماوں کے رول کی اہمیت پر زور دیاہے۔
دنیا کے مختلف مذاہب اور بین المذاہب نیٹ ورکوں اور کمیونٹیز کے نمائندوں کا ایک پانچ روزہ غیر معمولی اجلاس اکتوبر کے وسط میں منعقد ہوا۔ اس فورم کے اجلاس کی مختلف نشستوں کے دوران کووڈ ۔19، ماحولیاتی تبدیلی، سماجی، نسلی اور اقتصادی عدم مساوات، ماحولیاتی چیلنجز ، مقدس مقامات بشمول عبادت گاہوں کے رکھ رکھاو اور تحفظ کے علاوہ آج دنیا کو درپیش دیگر اہم مسائل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہ اجلاس گوکہ اس سال جی۔ 20چوٹی کانفرنس کے میزبان ملک سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقد ہونا تھا تاہم کورونا وائرس کی عالمی وبا کے مدنظر اسے ورچوئلی منعقد کیا گیا۔اس کانفرنس میں 90ملکوں سے 2000سے زائد افراد نے شرکت کی ۔سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مذہبی رہنماوں اور بین المذاہب شراکت داری کو ایک میز پر لانے اور تبادلہ خیال کرنے میں کلیدی رول ادا کیا ، تاکہ دنیا کو درپیش مسائل کا کوئی حل تلاش کیا جاسکے۔
اس اجلاس کے منتظمین بین الاقوامی مکالمتی مرکز(KAICIID)، جی ۔20بین المذاہب ایسوسی ایشن، اقو ام متحدہ کے ادارہ برائے الائنس آف سویلائزیشنز(UNAOC )اور سعودی عرب کی قومی کمیٹی برائے بین المذاہب اور بین الثقافتی مذاکرات نے اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا ، جس میں عالمی پالیسی سازی کے اداروں میں مذہبی رہنماوں اور مذہبی فریقین کو خاطر خواہ نمائندگی دینے کی اپیل کی گئی ہے۔
مذہب پر مبنی تنظیموں کا رول
اس پانچ روزہ اجلاس کے دوران دنیا بھر سے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اہم مذہبی رہنماوں کے علاوہ ، سرکاری حکام،
اقو ام متحدہ کے اداروں کے اعلی افسران اور نظریہ سازوں نے حصہ لیا۔مختلف موضوعات پر قائم پینلز میں شامل ماہرین نے اپنے تجربے اور علم کی بنیاد پر مسائل کے حل کے سلسلے میںمختلف تجاویز پیش کیں۔ ان تجاویز کونومبر میں ریاض میں جی ۔20کے رہنماوں کی چوٹی کانفرنس میں پیش کیا جائے گا۔
KAICIID کے سکریٹری جنرل فیصل بن معمر نے اپنے اختتامی کلمات میںمذہبی رہنماوں اور حکومتی پالیسی ساز اداروں کے درمیان زیادہ ربط قائم کرنے کی اپیل کی ۔ انہوں نے کہا’’ جی ۔20بین المذاہب فورم نے مذہبی افراد اور اداروں کے ذریعہ کیے گئے کاموں کی وسعت اور امکانات کواجاگر کیا ہے۔‘‘فورم کے بیشتر مقررین کا خیال تھا کہ کووڈ۔19نے اقو ام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے چیلنجز میں اضافہ کردیا ہے۔
جی ۔20 بین المذاہب فورم
جی ۔20بین المذاہب فورم کا قیام مذہبی خیالات رکھنے والے رہنماوں اور سیاسی نمائندوں کے باہمی تعاون سے عالمی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے عمل میں آیا تھا۔یہ مذہبی اداروں اور نظریات کے عالمی امور میں اہم رول ادا کرنے میں مدد کرتا ہے تاکہ متنوع اداروں، خیالات اور قدروںکی بھی دنیا بھر میں بھرپور عکاسی کرسکے۔
ان میٹنگوں کا مقصد ایسی بامعنی اور تعمیری تجاویز پیش کرنا تھا جن سے آئندہ جی ۔20چوٹی کانفرنس کو اپنا ایجنڈا اور عالمی پالیسی کا ایجنڈا طے کرنے میں مدد مل سکے۔اس سال کے جی ۔20 بین المذاہب فورم کا ایجنڈا اقو ام متحدہ پائیدار ترقیاتی اہداف پر مرکوز تھاجبکہ سماجی ہم آہنگی، مساوات اور پائیداری اس فورم کے قیام کے بعد سے ہی اس کے مرکزی موضوعات رہے ہیں۔
ایسے وقت میں جب کہ دنیا کووڈ۔19کی وبا سے نبردآزما ہے ، اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہونے والی اجتماعی کوششوں میں مذہبی تنظیمیں او رمذہبی عناصر کا رول کافی اہم ہے۔
بین المذاہب فورم کا خیال ہے کہ بین مذاہب خیالات کودرس وتدریس میں ایسے تجرباتی طورپر شامل کیا جو مذہبی اور سکیولر منظر نامے کے درمیان پائی جانے والی خلیج اور مختلف مذہبی روایات کے ماننے والوں کے درمیان دوری کو کم کرنے کا سبب بن سکے۔
مختلف موضوعات پر منعقدہ پینلوں نے اس حقیقت پر بھی زور دیا کہ مذہبی ادارے اور مذہب پر مبنی تنظیمیں (ایف بی او) قیام امن، تصادم کو روکنے اور ثالثی کے لیے ضروری ہیں۔ مشاہدے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جب بھی مذہبی عناصر کا احترام کیا گیا اور معاملات کو حل کرنے میں، سمجھ بوجھ کے ساتھ، ان کی مدد لی گئی تو وہ حکومتوں اور امن قائم کرنے والے اداروں اور عناصر کے لیے بھی موثر ثابت ہوئے ہیں۔
جی ۔20بین المذاہب فورم مختلف مذہبی نیٹ ورک اور سیاسی نمائندوں کے درمیان متحرک تعاون کے ذریعہ عالمی مسائل کا حل تلاش کرنے پر زور دیا ۔ تبادلہ خیال کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ عالمی سیاسی رہنماوں کو پالیسی سازی کے عمل میں مذہبی عناصر کو شامل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز ریاض چوٹی کانفرنس سے کیا جاسکتا ہے۔
فورم کی سفارشات
مختلف پینلز اور پالیسی گروپوں نے اپنی بیشتر سفارشات میں اس بات پر روشنی ڈالی کہ دنیا بھر میں سماج کو درپیش مختلف طرح کے مسائل کا مقابلہ کرنے میں مذہبی رہنما کس طرح سرگرم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ایک اہم سفارش یہ تھی کہ اب وقت آگیا ہے کہ جی ۔20بین المذاہب فورم کو ایک مذہبی پلیٹ فارم کے طورپر باضابطہ تسلیم کیا جائے اور اسے مستقبل میں جی ۔20کی چوٹی کانفرنسوں میں باضابطہ شریک کیا جائے۔
فورم نے مذہبی رہنماوں اور اداروں سے آپس میں اور حکومتی پالیسی سازاداروں کے ساتھ بھی اتفاق رائے پیدا کرنے اپیل کی تاکہ موثر مذاکرات، بات چیت اور امن سازی کے عمل کے لیے مشترکہ کوششیں کی جاسکیں اور مذہب کو تصادم کو ہوا دینے کا آلہ بننے کے بجائے امن قائم کے ذریعہ کے طور پر پیش کیا جاسکے۔
فورم نے اداروں کی آزادی کا مکمل احترام کرتے ہوئے، ملکوں، سیاسی اداروں اور مذہبی رہنماوں کے درمیان تعاون کے لیے شمولیتی ادارہ جاتی چینلوں کو سرگرم کرنے کے لیے کثیر رخی اقدامات اپنانے کی اپیل کی ۔اس میں مذہبی اداروں اور رہنماوں کے رول کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تاکہ وہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مذاکرات او رتعاون میں مددگار کے طورپر کام کرسکیں۔
مقررین نے ایسے ادارے بھی قائم کرنے کی بھی اپیل کی جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانی جیسے مسائل کو حل کرسکیں اور یکساں حقوق اور مواقع کی ضمانت دے سکیں ۔انہوں نے کہا کہ اس سے سماجی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا ۔ جس سے ایک مضبوط، نمائندہ اور جمہوری فیصلہ سازی اور وسیع سماجی مذاکرات اور سب کے لیے محفوظ مستقبل کی تعمیر کی جاسکے۔
مذہبی رہنما اور مذہبی اداروں کے مابین اس بات پربھی اتفاق تھا کہ ملکوں کو اپنے قومی قانونی اور سیاسی نظام کی تنظیم نو کرنی چاہئے تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیو ں اور سیاسی اور انتظامی شعبوں میں پائی جانے والی تمام طرح کی بدعنوانیوں کو دور کیا جاسکے اور انصاف، شفافیت، جواب دہی اور احتساب کو فروغ حاصل ہوسکے۔
یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم کریں کہ سیاسی عناصر، مذہبی رہنماو ں اور مذہب پر مبنی تنظیموں کی مدد یا ان کے تعاون کے بغیر سرگرم کردار ادا نہیں کرسکتے۔تمام انسانوں ، سوائے ملحدین کے، کے لیے مذہب ان کی زندگی میں اور ان کی ذمہ داریوں اور عمل میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔اگر ہم اپنی زندگی میں ان عناصر کو شامل کرسکیں تو غالباً ہم ایک ایسی دنیا تعمیر کرسکتے ہیں جو تمام طرح کی دشمنی اور تصادم سے پاک ہوسکتی ہے۔
(مصنف سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ وہ بی بی سی اردو اور خلیج ٹائمز دوبئی سے وابستہ رہ چکے ہیں)
ای میل asad.mirza.nd@gmail.com