بلڈوزر کی تباہ کاریوں کے خلاف سپریم کورٹ کے جج اجل بھوئیاں نے گزشتہ ہفتہ جوکچھ کہا ہے، وہ ان سرکاروں کے منہ پر زوردار طمانچے سے کم نہیں ہے جن کے ہاں آئین اور قانون کی بجائے بلڈوزر کا راج ہے۔بلڈوزر کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے جسٹس بھوئیاں نے پونے میں کہا کہ”اگر اس رجحان کو نہیں روکا گیا تو اس سے انصاف کا نظام بھی تباہ ہوجائے گا۔“جسٹس بھوئیاں کے بیان کا تجزیہ کرنے سے پہلے آئیے ہم ملک میں بلڈوزر کی ان تباہ کاریوں کا جائزہ لیتے ہیں جو بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں اور جن پر سپریم کورٹ باربار وارننگ جاری کررہا ہے۔شروعات ممبئی کے ایک واقعہ سے کرتے ہیں جہاں اس اسٹوڈیو کو تہس نہس کردیا گیا ہے، جس میں کامیڈین کنال کامرا نے مبینہ طورپر مہاراشٹر کے نائب وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے کا مذاق اڑایا تھا۔اتنا ہی نہیں ممبئی میونسپل کارپوریشن نے اس اسٹوڈیو کو ناجائز تعمیر قرار دے کراس پر ہتھوڑے برسائے ہیں اور بلڈوزر کارروائی بھی انجام دی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ شیوسینا (شندے)کے جن کارکنوں نے عوامی جائداد کو نقصان پہنچایا ہے، ان کے خلاف اتنی معمولی دفعات کے تحت کارروائی کی گئی کہ انھیں فوری ضمانت مل گئی۔ جبکہ بی جے پی ریاستوں میں یہ نظام رائج ہے کہ جو کوئی پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچاتا ہے، اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جاتی ہے اور اگلے ہی لمحے بلڈوزر اس کے دروازے پر پہنچ جاتا ہے، جیسا کہ ناگپور فساد کے ’سرغنہ‘ قرار دئیے گئے فہیم خان کے معاملے میں ہوا ہے۔ بغیر کوئی نوٹس دئیے ان کے گھر پر بلڈوزر چلادیا گیا۔ اگر اس معاملے میں ہائی کورٹ کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا جاتا تو مزید ملزمان کے گھر مسمار کردئیے گئے ہوتے۔یہی صورتحال اترپردیش کے آگرہ میں دیکھنے کو ملی ہے، جہاں سماجوادی پارٹی کے راجیہ سبھا رکن رام جی لال سمن کے گھر پر کرنی سینا نامی تنظیم کے کارکنوں نے زبردست تباہی مچائی ہے، لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور انھیں فوری ضمانت پر چھوڑدیا گیا۔
ممبئی، ناگپور اور آگرہ کے ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس ملک میں بلڈوزر کارروائی صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف انجام دی جارہی ہے جبکہ حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے شرپسندوں کو عام معافی دی جارہی ہے۔سپریم کورٹ کی بار بار کی وارننگ کی باوجود بلڈوزر کا سفر جاری ہے۔ بلڈوزر کے سامنے نہ تو قانون کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی ملک کے آئین کی۔یہی وجہ ہے کہ جسٹس اجل بھوئیاں نے بلڈوزر کارروائی کو آئین کو منہدم کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ”اگر اس رجحان کو نہیں روکا گیا تو اس سے انصاف کا نظام تباہ ہوجائے گا۔“
کہا جاتا ہے کہ ملک میں آئین اورقانون کا راج ہے، لیکن جب ہم عملی طورپر اس کا مشاہدہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کسی قانونی کارروائی اور آئینی تقاضے کے بغیر کمزوروں پرہتھوڑے برسا ئے جارہے ہیں اورقانون ان لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑپا رہا ہے جو طاقت کے گھمنڈ میں سب کچھ تہس نہس کرنے پر آمادہ ہیں۔ سچ پوچھئے تو ملک میں ’جس کی لاٹھی اس کی بھیس‘ کا نظام قائم ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت باربار بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں کو وارننگ دے رہی ہے کہ وہ قانونی کارروائی کے بغیر کہیں بلڈوزر کا استعمال نہ کریں، لیکن سپریم کورٹ کی ہدایات کو بھی ٹھینگا دکھایا جارہا ہے اور ہرجگہ من مانی کی جارہی ہے۔گزشتہ پیر کو سپریم کورٹ نے ایک بار پھر اس معاملے میں سخت ہدایات جاری کی ہیں۔ سپریم کورٹ نے پریاگ راج میں من مانے طریقے سے مکان ڈھانے کے لیے یوپی سرکار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کارروائی سے ان کے ضمیرکو دھکا لگا ہے۔ فاضل ججوں نے چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی مکانوں کو بلڈوزر سے منہدم کرنے اور متاثرین کو اپیل کا وقت نہ دینے پر بھی ناراضگی ظاہر کی۔بنچ نے کہا کہ ”یہ ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے کہ کس طرح سے رہائشی مکانات کو من مانے طریقے سے منہدم کیا گیا۔ جس طرح پورے عمل کو انجام دیا گیا، وہ چونکانے والا ہے۔ عدالتیں ایسے عمل کو برداشت نہیں کرسکتیں۔“
واضح رہے کہ پریاگ راج میں کئی مسلمانوں کے گھروں کو ناجائز تعمیرات قرار دے کر بلڈوزر سے منہدم کردیا گیا تھا اورایسا کرنے سے پہلے کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ بعد کو یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا توعدلیہنے اس پر سخت موقف اختیار کیا۔دراصل اب اس ملک میں یہی ہورہا ہے کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں جہاں کہیں موقع ملتا ہے سرکاری مشنری مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں پر بغیر کسی قانونی عمل کے بلڈوزر چلادیتی ہے اور اگر کہیں کوئی فساد برپا ہوجائے تو چن چن کر مسلم گھروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گویا ملک میں قانون نام کی کوئی چیز ہی نہ ہو او ر سب کچھ سرکار اور اس کی بھینگی مشنری کے تعصب اور مسلم دشمنی کے تحت ہورہا ہو۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں مسلمان دوئم درجے کے شہری بنادئیے گئے ہیں اور ان سے وابستہ ہرشے کومٹانے اور منہدم کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ نہ صرف یہ ان کی تاریخ وتہذیب کو مٹایا جارہا ہے بلکہ ان کی مسجدیں، مدرسے اور درگاہیں سب نشانے پر ہیں۔مسلمانوں سے متعلق ہر چیز کو متنازعہ بنانے کی کوششوں کے پیچھے ایک ہی مقصد کارفرما ہے کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو دیوار سے لگایا جائے اور انھیں اتنا لاچار اور مجبور بنادیا جائے کہ وہ ظالموں کے آگے سرنگوں کردیں۔ لیکن جو لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مسلمان ظلم کے آگے ہتھیار ڈال دیں گے، انھیں مسلمانوں کی تاریخ کا کوئی علم نہیں ہے۔ جیسے جیسے ظلم بڑھ رہا ہے ویسے ویسے مسلمانوں کا عزم وحوصلہ مضبوط ہورہا ہے۔حال ہی میں سنبھل اور میرٹھ کی پولیس نے عید کی نماز سڑکوں پر ادا کرنے والے مسلمانوں کے پاسپورٹ اور لائسنس ضبط کرنے جیسے ہٹلری احکامات جاری کردئیے اور انھیں طرح طرح سے ہراساں کرنے کی کوششیں کیں۔
ایک طرف جہاں طاقت اور اقتدار کے نشے میں بدمست زعفرانی فوج بلڈوزر کو انصاف اور آئین کا متبادل بنانے پر تلی ہوئی ہے تو وہیں عدلیہ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بلڈوزر کارروائی کو آئین کو منہدم کرنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ پونے میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اجل بھوئیاں نے بلڈوزر کلچرکے حوالے سے جوکچھ کہا ہے، اس پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ پونے کے بھارتیہ ودیا پیٹھ نیو لاء کالج میں طلباء کو خطاب کے دوران بلڈوزر کارروائی کو آئین کو منہدم کرنے کے مترادف قرار دیا۔انھوں نے کسی شخص کے جرم میں ملوث پائے جانے پر بلڈوزر چلاکر اس کے اہل خانہ کو اجتماعی سزا سے دوچار کرنے کی معقولیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اس کو آئین و قانون کی حکمرانی کے تصور کے منافی قرار دیا۔
جسٹس بھوئیاں نے کہا کہ ”حالیہ دنوں میں ہم ریاستی حکام کی طرف سے بلڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کے مکانات اور جائیدادوں کومسمار کر نے کے انتہائی پریشان کن اور افسردہ کرنے والے عمل کا مشاہدہ کررہے ہیں جن پر بعض جرائم کا الزام ہے۔‘‘انھوں نے اس کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ”اس طرح کے اقدامات خود آئین کو منہدم کرنے کے مترادف ہیں۔“ جسٹس بھوئیاں نے مزید کہا کہ’’یہ اقدامات قانون کی حکمرانی کے تصور کی نفی کرتے ہیں اور اگر اس پر روک نہیں لگائی گئی تو ملک میں انصاف کی فراہمی کا ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ جائے گا۔“ا نھوں نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا حوالہ دیا جس میں بلڈوزر کارروائی کو غیر قانونی قراردیا گیا تھا اور املاک کی من مانی مسماری کو روکنے کے لیے رہنما اصول وضع کئے گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ”بلڈوزر کارروائی سے نہ صرف ملزم کے منصفانہ ٹرائل کا حق متاثر ہوتا ہے بلکہ اس کے لیے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں، جسے دفعہ21کے تحت زندگی کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ فاضل جج نے کسی ایک شخص کے جرم میں ملوث ہونے پر اس کے اہل خانہ کو اجتماعی سزا سے دوچار کرنے کی معقولیت اور منطق پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ”اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ ایک شخص ملزم یا مجرم ہے، لیکن اس کے گھر میں ماں،بہن اور اس کے بیوی بچے بھی رہتے ہیں۔ آخر ان لوگوں کا قصور کیا ہے کہ ان کے گھروں کو مسمار کیا جائے، وہ کہاں جائیں گے؟“