واشنگٹن: امریکہ میں فلسطین حامی مظاہروں میں شامل غیرملکی طلبہ پر شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں شہری منصوبہ بندی (اربن پلاننگ) کی پی ایچ ڈی طالبہ سرینواسن کا ویزا امریکی حکومت نے منسوخ کر دیا، جس کے بعد انہوں نے خود ملک چھوڑ دیا۔
امریکی محکمہ داخلہ (ڈی ایچ ایس) کے مطابق، سرینواسن کا ویزا 5 مارچ کو منسوخ کیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے 11 مارچ کو کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن (سی بی پی) ہوم ایپ کے ذریعے خود ملک بدری کا اختیار استعمال کیا۔ امریکی حکام کا الزام ہے کہ وہ فلسطین حامی مظاہروں میں سرگرم تھیں اور انہوں نے "حماس کی حمایت" کی، جسے 1997 میں امریکہ نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی حکومت کی جانب سے کولمبیا یونیورسٹی میں جاری فلسطین حامی مظاہروں کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے، امریکی حکومت نے یونیورسٹی پر 400 ملین ڈالر کی وفاقی فنڈنگ روکنے کا اعلان کیا تھا، جس کی وجہ کیمپس میں یہودی طلبہ کو مبینہ ہراسانی سے نمٹنے میں ناکامی بتائی گئی تھی۔
اسی دوران، ایک اور فلسطینی طالبہ، لیقا کورڈیا، کو امیگریشن حکام نے زائد المیعاد ویزا پر گرفتار کر لیا۔ انہیں 2024 میں کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کے الزام میں پہلے بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔
سرینواسن کے تعلیمی پس منظر کے مطابق، انہوں نے سی ای پی ٹی یونیورسٹی، احمد آباد سے بیچلرز کیا اور بعد میں فلبرائٹ-نیہرو اور انلاک اسکالرشپس کے تحت ہارورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز مکمل کیا۔ ان کی تحقیق کا مرکز ہندوستان میں نوآبادیاتی معیشت کے بعد کے سماجی و اقتصادی حالات اور ماحولیاتی منصوبہ بندی تھا۔
سرینواسن کے امریکہ چھوڑنے کے بعد، سوشل میڈیا پر دائیں بازو کے افراد نے ان پر طنز کیے، جبکہ کچھ ہندوستانی صارفین نے انہیں ’لبرل ازم‘ کے باعث ملک کا نام بدنام کرنے کا الزام دیا۔ اطلاعات کے مطابق، وہ ممکنہ طور پر کینیڈا کے لیے روانہ ہوئی ہیں، تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔