Jadid Khabar

عمان میں ایران سے براہ راست مذاکرات کریں گے: امریکہ کا اعلان

Thumb

واشنگٹن: امریکہ نے تصدیق کی ہے کہ ایران سے براہ راست مذاکرات کل ہفتہ کو عمان میں ہوں گے، حالانکہ تہران ان مذاکرات کو بالواسطہ قرار دے چکا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے جمعہ کو صحافیوں کو بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ براہ راست سفارت کاری پر یقین رکھتے ہیں اور یہ بات چیت ایرانی حکام کے ساتھ براہ راست ہوگی۔

انہوں نے کہا، ’’میں چاہتی ہوں کہ یہ بات بالکل واضح ہو کہ یہ ایرانیوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات ہوں گے۔ صدر ٹرمپ ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر براہ راست بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے تمام آپشنز میز پر موجود ہیں۔ ’’صدر ٹرمپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سفارت کاری سے مسئلہ حل ہو، لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو دیگر تمام آپشنز بھی موجود ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ صدر ٹرمپ کی پیشکش قبول کرتا ہے یا سنگین نتائج کے لیے تیار ہو جائے۔ ’’صدر کا پیغام واضح ہے: ایران کبھی ایٹمی ہتھیار حاصل نہ کرے۔‘‘
ایران کی جانب سے اس مؤقف کے برعکس، ایرانی حکام کا اصرار ہے کہ یہ مذاکرات بالواسطہ طور پر عمان کی ثالثی سے ہوں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی صدر کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف کے درمیان بات چیت کی قیادت کی جائے گی، جبکہ عمانی وزیر خارجہ بدر البوسعیدی ثالثی کا کردار ادا کریں گے۔
ایرانی سپریم لیڈر کے مشیر علی شمخانی نے بیان دیا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ کو مکمل اختیار کے ساتھ عمان بھیجا جا رہا ہے تاکہ وہ امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کریں۔
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی سٹیو وٹکوف نے کہا ہے کہ امریکہ کسی تصفیے کے لیے تیار ہے۔ ان کے بقول، ٹرمپ کی حکومت ایک عملی اور نتیجہ خیز معاہدے کی خواہاں ہے۔
واضح رہے کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے دور میں بھی ایران کے ساتھ بات چیت ہوئی تھی لیکن وہ بالواسطہ رہی اور بہت کم پیش رفت حاصل ہوئی۔ دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کا آخری دور صدر براک اوباما کے دور میں ہوا تھا۔
صدر ٹرمپ نے مارچ کے اوائل میں یہ انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے ایران کو ایک خط لکھا تھا جس میں مذاکرات کی پیشکش کی گئی اور معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں فوجی کارروائی کی دھمکی بھی دی گئی۔ ایران نے بعد میں جواب دیا کہ وہ صرف بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار ہے، براہ راست مذاکرات کا امکان مسترد کر دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ 2015 میں ایران نے امریکہ، روس، چین اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کے تحت جوہری معاہدہ کیا تھا، لیکن ٹرمپ نے 2018 میں یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ پابندیاں لگا دی تھیں۔