حیدر آباد یونیورسٹی احاطہ کے پاس 400 ایکڑ زمین سے پیڑوں کو کاٹنے پر سپریم کورٹ نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بدھ کو سماعت کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر پہلے کی حالت بحال کرنی ہوگی۔ یہ علاقہ جنگل جیسا ہے اور اسے حیدرآباد کا پھیپھڑا کہا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں یہاں صنعتی علاقہ آباد کرنے کے لیے پیڑوں کی کٹائی شروع کی گئی تھی جس کے احتجاج میں لوگ سڑکوں پر اتر آئے تھے۔ اس کا ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر خوب شیئر ہوا تھا، جس میں جنگل کے کٹنے سے جانور اور پرندے بھاگ رہے تھے۔ یہ خوفناک منظر دیکھ کر ہر کوئی پریشان تھا اور مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ ماحولیات کا تحفظ کرنا چاہیے۔ ایسے پیڑوں کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں بھی عرضی داخل کی گئی تھی جس پر عدالت نے پرانی حالت کو بحال کرنے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے تلنگانہ حکومت سے کہا کہ آپ کو 100 ایکڑ زمین پر پہلے کی حالت بحال کرنے کے لیے منصوبہ بنانا ہوگا۔ بنچ نے پیڑوں کی کٹائی کے معاملے میں تلنگانہ حکومت کی جلدبازی پر سوال بھی اٹھایا۔ عدالت نے کہا کہ ماحولیات کو نقصان پہنچایا گیا ہے ہم اس سے فکرمند ہیں۔ بنچ نے کہا کہ ویڈیو میں جانوروں کو پناہ کی تلاش میں بھاگتے ہوئے دیکھ کردم بخود ہیں۔
عدالت نے تلنگانہ حکومت سے کہا کہ آپ دیکھئے کہ جنگلی جانوروں کا تحفظ کس طرح سے کیا جائے گا۔ عدالت نے تلنگانہ کے وائلڈ لائف وارڈین کو جنگلی جانوروں کے تحفظ کے لیے فوری قدم اٹھانے کی ہدایت دی۔ بنچ نے کہا کہ یہ تشویشناک ہے کہ اس طرح پیڑوں کو کاٹا جا رہا ہے اور جانور و پرندے اپنی پناہ کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ حیدرآباد یونیورسٹی کے پاس واقع کانچا گاچی بوولی علاقے میں جنگل کی 400 ایکڑ زمین ہے۔ اس علاقے میں تقریباً 700 سے زیادہ نسل کے پیڑ اور پودے ہیں۔ اس کے علاوہ 200 سے زائد نسل کے پرندوں کے لیے بھی یہ جنگل جائے پناہ ہے۔ گزشتہ دنوں جب اس جنگل پر کلہاڑی چلی تو جانور دوست سمیت عام شہریوں نے بھی اس پر اعتراض ظاہر کیا۔ یہی نہیں سوشل میڈیا پر بھی اس پیڑ کٹائی کا ویڈیو خوب تیزی سے وائرل ہوا اور حیدر آباد سمیت پورے ملک میں غصہ دیکھنے کو ملا۔
دراصل تلنگانہ اسٹیٹ انڈسٹریل انفرااسٹرکچر کارپوریشن کو زمین الاٹ کی گئی تھی۔ اس کے خلاف طلبا اور ماہرین ماحولیات مل کر احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے۔ کارپوریشن اس زمین کی نیلامی کرکے ایک آئی ٹی پارک بنوانا چاہتا تھا۔